ارشاد ہیں یہ اشعار ہلکے پھلکے
لیجئیے مزا ذرا ہلکے ہلکے
پلو چھڑا کے وہ یک دم بولا
جا منہ دھو نیچے نل کے
ہم سے درباں نے کہا در پہ
ناراض ہیں وہ تم سے کل کے
پھل کھائے گئے بزم میں انکی
اپنے حصے میں آئے چھلکے
“ گیا مشرق تو جانے مری بلا“
کہا یحیی نے پہلو بدل کے
“فکس اپ کردوں گا سنبھلو“
کہا زلفی نے قوم سے جل کے
جورو نے پھر اس سے توڑا ناتا
بعد چھاتی پہ مونگ دل کے
جسم تھا یا کیا تھا یارو
جیسے نکلا ہو سانچے میں ڈھل کے
قرب یار میں رات کو پی کر
صبح مسجد سے نکلے دھل کے
جب ناصر نے غزل کی تمام
آنسو چشم سے خوشی کے چھلکے