کر دیا مجھے بد نام میری آوارگی نے
کچھ تو کیا ہے کام میری آوارگی نے
ہوتا تھا کبھی شمار میرا بھی خواص میں
کر دیا ہے مجھے عام میری آوارگی نے
جلائے رکھا تھا جو تیرے انتظار کا دیا
بجھا دیا آج سر شام میری آوارگی نے
بہت نام کرتے ہم بھی میدان عشق میں
پر قصہ کیا تمام میری آوارگی نے
وہ تو ٹھہرا، مڑا، کھڑا رہا دیر تلک
ہونے نہ دیا ہمکلام میری آوارگی نے