آواز جو سچ کی نہ اٹھا پائیں صحافی
اے کاش کہ وہ ڈوب کے مر جائیں صحافی
بربادی پہ ملت کی جو چپ سادھے ہیں بیٹھے
کس منہ سے بھلا خود کو وہ کہلائیں صحافی
کوٹھے کی طوائف کی طرح باندھ کے گھنگرو
کیوں بنتے ہیں نِرتَک ذرا سمجھائیں صحافی
مظلوم جِنھیں کوستے ہیں جھولی اٹھا کر
گن بیٹھے اُنْھِیں ظالموں کے گائیں صحافی
افواج کی پسپائی سے کب پسپا ہوں قومیں
تب پست ہوں اقوام جو جھک جائیں صحافی
چھپ چھپ کے چلاتا ہے جو کٹھ پتلی تماشا
وہ کون مداری ہے یہ بتلائیں صحافی
بے وقعتی تب قوم کی بن جاتی ہے قسمت
جب کوڑیوں کے بھاؤ میں بک جائیں صحافی
لوگوں کے دلوں میں تو وہی رہتے ہیں زندہ
جو سچ کے لیے جھوٹ سے ٹکرائیں صحافی