آگے جمال یار کے معذور ہو گیا
گل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہو گیا
اک چشم منتظر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ
جوں زخم تیری دوری میں ناسور ہو گیا
قسمت تو دیکھ شیخ کو جب لہر آئی تب
دروازہ شیرہ خانے کا معمور ہو گیا
پہنچا قریب مرگ کے وہ صید ناقبول
جو تیری صید گاہ سے ٹک دور ہو گیا
دیکھا یہ ناؤ نوش کہ نیش فراق سے
سینہ تمام خانۂ زنبور ہو گیا
اس ماہ چاردہ کا چھپے عشق کیونکے آہ
اب تو تمام شہر میں مشہور ہو گیا
شاید کسو کے دل کو لگی اس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیشۂ دل چور ہو گیا
لاشہ مرا تسلی نہ زیر زمیں ہوا
جب تک نہ آن کر وہ سر گور ہو گیا
دیکھا جو میں نے یار تو وہ میرؔ ہی نہیں
تیرے غم فراق میں رنجور ہو گیا