Add Poetry

آگ کے درمیان سے نکلا

Poet: Shakeb Jalali By: Ehtisham, lhr
Aag Ke Darmiyan Se Nikla

آگ کے درمیان سے نکلا
میں بھی کس امتحان سے نکلا

پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے
پھر دھواں گلستان سے نکلا

جب بھی نکلا ستارۂ امید
کہر کے درمیان سے نکلا

چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں
کوئی سایہ مکان سے نکلا

ایک شعلہ پھر اک دھویں کی لکیر
اور کیا خاکدان سے نکلا

چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا

یہ گہر جس کو آفتاب کہیں
کس اندھیرے کی کان سے نکلا

شکر ہے اس نے بے وفائی کی
میں کڑے امتحان سے نکلا

لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ
کام جس مہربان سے نکلا

Rate it:
Views: 1038
29 Dec, 2016
More Shakeb Jalali Poetry
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی
آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط
یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے
کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی
کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے
دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
مرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے
ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان
ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ناچار گرے
کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے
وہ تجلی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے پر
آئنے ٹوٹ گئے آئنہ بردار گرے
دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے
saeed
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets