آیا زمانہ ایسا کہ سب کچھ بدل گیا
سمجھا تھا پھول جس کو وہ کانٹا نکل گیا
ڈھونڈا بہت مگر نہ تو انسانیت ملی
انسان کے ہی بھیس میں وحشی ہی مل گیا
ہر شاخ پہ ہے الو تو فکرِ چمن بڑھے
غفلت رہی تو سمجھو چمن بھی تو رُل گیا
کشتی پھنسے بھنور میں تو ساحل بھی مل جائے
پھنس جائے دل کی کشتی تو ساحل بھی ٹل گیا
تقریر بھی خطیب کی دلچسپ تو رہی
نہ تھا خلوصِ شوق تو بس ہاتھ مَل گیا
جیسی کرنی ویسی بھرنی شکوہ عبث بھی ہے
جو بویا سو وہ کاٹا تو کیوں نہ سنبھل گیا
اہلِ ستم کا اثر نے یہ حال بھی سنا
اٌن کا ستم کبھی تو اُنہیں کو نگل گیا