ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے
اڑ گیا جب رنگ رخ سے استخواں پیدا ہوئے
خاکساری نے دکھائیں رفعتوں پر رفعتیں
اس زمیں سے واہ کیا کیا آسماں پیدا ہوئے
علم خالق کا خزانہ ہے میان کاف و نون
ایک کن کہنے سے یہ کون و مکاں پیدا ہوئے
ضبط دیکھو سب کی سن لی اور کچھ اپنی کہی
اس زباں دانی پر ایسے بے زباں پیدا ہوئے
شور بختی آئی حصے میں انہیں کے وا نصیب
تلخ کامی کے لیے شیریں زباں پیدا ہوئے
احتیاط جسم کیا انجام کو سوچو انیسؔ
خاک ہونے کو یہ مشت استخواں پیدا ہوئے