ابلاغ کے بدن میں تجسس کا سلسلہ
ٹوٹا ہے چشم خواب میں حیرت کا آئنہ
جو آسمان بن کے مسلط سروں پہ تھا
کس نے اسے زمین کے اندر دھنسا دیا
بکھری ہیں پیلی ریت پہ سورج کی ہڈیاں
ذروں کے انتظار میں لمحوں کا جھومنا
احرام ٹوٹتے ہیں کہاں سنگ وقت کے
صحرا کی تشنگی میں ابو الہول ہنس پڑا
انگلی سے اس کے جسم پہ لکھا اسی کا نام
پھر بتی بند کر کے اسے ڈھونڈتا رہا
شریانیں کھنچ کے ٹوٹ نہ جائیں تناؤ سے
مٹی پہ کھل نہ جائے یہ دروازہ خون کا
موجیں تھیں شعلگی کے سمندر میں تند و تیز
میں رات بھر ابھرتا رہا ڈوبتا رہا
الفاظ کی رگوں سے معانی نچوڑ لے
فاسد مواد کاغذی گھوڑے پہ ڈال آ