ابھی بچھڑا ہے وہ کچھ روز تو یاد آئے گا
نقش روشن ہے مگر نقش ہے دھندلائے گا
گھر سے کس طرح میں نکلوں کہ یہ مدھم سا چراغ
میں نہیں ہوں گا تو تنہائی میں بجھ جائے گا
اب مرے بعد کوئی سر بھی نہیں ہوگا طلوع
اب کسی سمت سے پتھر بھی نہیں آئے گا
میری قسمت تو یہی ہے کہ بھٹکنا ہے مجھے
راستے تو مرے ہم راہ کدھر جائے گا
اپنے ذہنوں میں رچا لیجیے اس دور کا رنگ
کوئی تصویر بنے گی تو یہ کام آئے گا
اتنے دن ہو گئے بچھڑے ہوئے اس سے اظہرؔ
مل بھی جائے گا تو پہچان نہیں پائے گا