اب تُوملتا بھی ہے لگتا ہے خفا ہےمجھ سے
اے مرےدوست تجھےکیسا گلا ہے مجھ سے
بے یقینی کے عذابوں میں گھرا رہتا ہوں
بے خیالی میں کوئی جرم ہوا ہے مجھ سے
لوگ کیوں مر کے ہی تعریف کیا کرتے ہیں
یہ عجب راز کبھی بھی نہ کھلا ہے مجھ سے
بے کلی اتنی تھی دل کی کہ پتنگا کل شب
راکھ خود ہو گیاجل کرجوچھوا ہے مجھ سے
کتنی آسانی سے لوگوں کو نظر آتا ہے
میراوہ عیب بھی جوخود بھی چھپا ہے مجھ سے
یہ مری زوجہِ خوشبخت کی دانائی ہے
میں توشاعر ہوں کبھی گھر بھی بسا ہے مجھ سے