سنو! اب بے خودی کا حق بنتا ہے
لبوں پر ہنسی کا حق بنتا ہے
دل جلانے میں تم تو ماہر ہو
تمہیں بے رُخی کا حق بنتا ہے
تم ذات کے ہر رمز سے واقف ہو
تم سے دوستی کا حق بنتا ہے
مبتلاءِ غم میں اُداس ہوں مُدّت سے
اب تھوڑی خوشی کا حق بنتا ہے
ہم نہیں قابلِ محبت حُسینؔ
مگر دل لگی کا حق بنتا ہے