اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیئے
بول اے ہوائے شہر کدھر جانا چاہیئے
کب تک اسی کو آخری منزل کہیں گے ہم
کوئے مراد سے بھی ادھر جانا چاہیئے
وہ وقت آ گیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
گہرے سمندروں میں اتر جانا چاہیئے
اب رفتگاں کی بات نہیں کارواں کی ہے
جس سمت بھی ہو گرد سفر جانا چاہیئے
کچھ تو ثبوت خون تمنا کہیں ملے
ہے دل تہی تو آنکھ کو بھر جانا چاہیئے
یا اپنی خواہشوں کو مقدس نہ جانتے
یا خواہشوں کے ساتھ ہی مر جانا چاہیئے