اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا
ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا
وہ جو کبوتر اس موکھے میں رہتے تھے کس دیس اڑے
ایک کا نام نوازندہ تھا اور اک کا بازندہ تھا
وہ دوپہر اپنی رخصت کی ایسا ویسا دھوکا تھی
اپنے اندر اپنی لاش اٹھائے میں جھوٹا زندہ تھا
تھیں وہ گھر راتیں بھی کہانی وعدے اور پھر دن گننا
آنا تھا جانے والے کو جانے والا زندہ تھا
دستک دینے والے بھی تھے دستک سننے والے بھی
تھا آباد محلہ سارا ہر دروازہ زندہ تھا
پیلے پتوں کو سہ پہر کی وحشت پرسا دیتی تھی
آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس اک کوا زندہ تھا