اثرات پڑتے دور رس حکمت کے بھی کردار پر
اقوام کی تقدیر رہتی منحصر تدبیر پر
افراد سرمایہ ہیں ملت میں ترقی لانے کا
بس روح بھر ديں انقلابی، کام ہو پھر پانے کا
بیدار گر ہو جائیں تو ممکن ہے راست بازی بھی
حیلہ بہانے چھوڑ دیں تو آتی فکريں عالی بھی
تنقید تو چلتی رہی ہر موڑ پر، ہر دور میں
تھے حوصلے مضبوط، وہ چلتے رہے ہر شور میں
دل میں تڑپ پیدا ہو جانے سے سہل راہیں ہوئی
جو بے طلب بیٹھے تو رسوائی مقدر میں ہوئی
کیا مسکراتے گل نہیں ناصر خزاں یا خار میں؟
کیوں بے خبر رہتے ہیں! کچھ معلوم بھی آزار میں؟