اثر آہ کا گر دکھائیں گے ہم
Poet: Meer Mehdi Majrooh By: kashif, khi
اثر آہ کا گر دکھائیں گے ہم 
 ابھی کھینچ کر تم کو لائیں گے ہم 
 
 ذرا رہ تو اے دشت آوارگی 
 ترا خوب خاکہ اڑائیں گے ہم 
 
 فسانہ تری زلف شب رنگ کا 
 بڑھے گا جہاں تک بڑھائیں گے ہم 
 
 وہی درد فرقت وہی انتظار
 بھلا مر کے کیا چین پائیں گے ہم 
 
 وہ گمراہ غیروں کے ہم راہ ہے 
 اسے راہ پر کیوں کہ لائیں گے ہم 
 
 قفس سے ہوا اذن پرواز کب 
 یہ خواہش ہی دل سے اڑائیں گے ہم 
 
 طلسم محبت ہے عاشق کا حال 
 انہیں بھی یہ قصہ سنائیں گے ہم 
 
 وہ نخوت سے ہیں آسماں سے پرے 
 کہاں سے انہیں ڈھونڈ لائیں گے ہم 
 
 نہ کر آہ یہ شورش افزائیاں 
 تجھے بھی کبھی آزمائیں گے ہم 
 
 نہ ٹوٹے گا سر رشتۂ اختلاط 
 وہ کھینچیں گے جتنا بڑھائیں گے ہم 
 
 یہ مانا کہ ہو رشک حور و پری 
 مگر آدمیت سکھائیں گے ہم 
 
 حذر تیر مژگاں کی بوچھاڑ سے 
 یہ اک دل کہاں تک بچائیں گے ہم 
 
 ہمیں زہر و خنجر کی کیوں ہے تلاش 
 شب غم میں کیا مر نہ جائیں گے ہم 
 
 نہ نکلا کوئی ڈھب تو بن کر غبار 
 نظر میں تمہاری سمائیں گے ہم 
 
 کہاں گھر میں مفلس کے فرش و فروش 
 وہ آئے تو آنکھیں بچھائیں گے ہم 
 
 ترے قد سے کی سرو نے ہم سری 
 اسے آج سیدھا بنائیں گے ہم 
 
 نہیں غسل میت کی جا قتل گاہ 
 مگر خاک و خوں میں نہائیں گے ہم 
 
 رہ عشق سے نابلد ہے ابھی 
 خضر کو یہ رستہ بتائیں گے ہم 
 
 ہوا وصل بھی تو مزا کون سا 
 وہ روٹھیں گے ہر دم منائیں گے ہم 
 
 شب و روز دل کو کریدیں نہ کیوں 
 یہیں سے پتا اس کا پائیں گے ہم 
 
 عبث ہے یہ مجروحؔ طول امل 
 بکھیڑے یہ سب چھوڑ جائیں گے ہم
ابھی کھینچ کر تم کو لائیں گے ہم
ذرا رہ تو اے دشت آوارگی
ترا خوب خاکہ اڑائیں گے ہم
فسانہ تری زلف شب رنگ کا
بڑھے گا جہاں تک بڑھائیں گے ہم
وہی درد فرقت وہی انتظار
بھلا مر کے کیا چین پائیں گے ہم
وہ گمراہ غیروں کے ہم راہ ہے
اسے راہ پر کیوں کہ لائیں گے ہم
قفس سے ہوا اذن پرواز کب
یہ خواہش ہی دل سے اڑائیں گے ہم
طلسم محبت ہے عاشق کا حال
انہیں بھی یہ قصہ سنائیں گے ہم
وہ نخوت سے ہیں آسماں سے پرے
کہاں سے انہیں ڈھونڈ لائیں گے ہم
نہ کر آہ یہ شورش افزائیاں
تجھے بھی کبھی آزمائیں گے ہم
نہ ٹوٹے گا سر رشتۂ اختلاط
وہ کھینچیں گے جتنا بڑھائیں گے ہم
یہ مانا کہ ہو رشک حور و پری
مگر آدمیت سکھائیں گے ہم
حذر تیر مژگاں کی بوچھاڑ سے
یہ اک دل کہاں تک بچائیں گے ہم
ہمیں زہر و خنجر کی کیوں ہے تلاش
شب غم میں کیا مر نہ جائیں گے ہم
نہ نکلا کوئی ڈھب تو بن کر غبار
نظر میں تمہاری سمائیں گے ہم
کہاں گھر میں مفلس کے فرش و فروش
وہ آئے تو آنکھیں بچھائیں گے ہم
ترے قد سے کی سرو نے ہم سری
اسے آج سیدھا بنائیں گے ہم
نہیں غسل میت کی جا قتل گاہ
مگر خاک و خوں میں نہائیں گے ہم
رہ عشق سے نابلد ہے ابھی
خضر کو یہ رستہ بتائیں گے ہم
ہوا وصل بھی تو مزا کون سا
وہ روٹھیں گے ہر دم منائیں گے ہم
شب و روز دل کو کریدیں نہ کیوں
یہیں سے پتا اس کا پائیں گے ہم
عبث ہے یہ مجروحؔ طول امل
بکھیڑے یہ سب چھوڑ جائیں گے ہم
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا
اک عمر کے دکھ پائے سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغلۂ محشر ہم کو نہ جگا جانا
مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا
یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا
گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی
ماہیت اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا
کیا یار کی بد خوئی کیا غیر کی بد خواہی
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا
کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا
اک شب نہ اسے لائے کچھ رنگ نہ دکھلائے
اک شور قیامت ہی نالوں نے اٹھا جانا
چلمن کا الٹ جانا ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا
ہے حق بطرف اس کے چاہے سو ستم کر لے
اس نے دل عاشق کو مجبور وفا جانا
انجام ہوا اپنا آغاز محبت میں
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا
مجروحؔ ہوئے مائل کس آفت دوراں پر
اے حضرت من تم نے دل بھی نہ لگا جانا






