احترام لب و رخسار تک آ پہنچے ہیں
بوالہوس بھی مرے معیار تک آ پہنچے ہیں
جو حقائق تھے وہ اشکوں سے ہم آغوش ہوئے
جو فسانے تھے وہ سرکار تک آ پہنچے ہیں
کیا وہ نظروں کو جھروکے میں معلق کر دیں
جو ترے سایۂ دیوار تک آ پہنچے ہیں
اپنی تقدیر کو روتے رہیں ساحل والے
جن کو آنا تھا وہ منجدھار تک آ پہنچے ہیں
اب تو کھل جائے گا شاید تری الفت کا بھرم
اہل دل جرأت اظہار تک آ پہنچے ہیں
ایک تم ہو کہ خدا بن کے چھپے بیٹھے ہو
ایک ہم ہیں کہ لب دار تک آ پہنچے ہیں