فریاد رس ہیں آپ تو ہم رُخ کدھر کریں
بے کس نواز ہم پہ کرم کی نظر کریں
وہ دن خدا دکھاے کہ ہم تشنہ کام بھی
سوئے مدینہ شوق سے رختِ سفر کریں
منگتے ہیں وہ بھی ایسے کہ بن مانگے پاتے ہیں
’’ٹکڑوں سے تو یہاں کے پلیں رُخ کدھر کریں‘‘
جن کو ہوا حضور سے ادراکِ نظم و ضبط
حق ہے انھیں کو بادشہی بے خطر کریں
رستے مہک مہک اُٹھیں گزریں جدھر سے آپ
عنبر عبیر ماند ہوں وہ رُخ جدھر کریں
دنیا سے ظلم و جور کے سارے نشاں مٹیں
اَخلاقِ مصطفی پہ عمل سب اگر کریں
ہو داغِ دل مُشاہدِؔ رضوی کا باغ باغ
وہ خواب ہی میں دل سے مرے گر گزر کریں
٭