میں رہی ہوں تیرے آبا کا زیور
تو مجھ کو یوں تو نہ پس پشت ڈال
مجھ میں ہی چھپا ہے تیرے اقبال کا راز
ذرا آنکھ کھول، کچھ نظر اس پے ڈال
بات تو صحیح، قابل اعتقاد
مگر مجھ کو ہے اس سے بڑھ کر کچھ درکار
تو نے دیکھا ہے مغرب کا اسلوب بیان
اس کو سیکھوں گا تو رہے گی مجھ پہ یہ دنیا آسان
لگتا ہے، تجھے مغرب کا خوب خمار
اپنے عروج سے بڑھ کر کیا تجھے درکار؟
مجھ کو پڑھ ، اپنی ثقافت تو سیکھ
مل جائے گا اسی میں جینے کا انداز
گر اپنی ثقافت میں ہوتا کچھ کمال
کیوں پھرتے یوں مارے مارے مسلمان
تہذیب مغرب ہے اس بات کی آئینہ دار
کہ اسی سے ہے جینے کا ثبات
یہ وہی ہیں جن کو میں نے
اپنے حکم پر کئی برسوں نچایا ہے
نسل آدم سے ہے ان کو بدلہ درکار
مغربی قرابت محض مکار و عیار
افسانوی باتوں پہ تو تہذیب نہیں کھڑی
پر شے ملاوٹ سے پاک پر چیز کھری کھری
تو کس بات کی رہی مکاری و عیاری
تم نے دیکھا نہیں مسلمانوں کا حال
مغرب کی اسی چال کے ہو شکار
جو شیر اپنے قصے بھول جائیں
سننے پڑتے ہیں ان کو پھر
شکاریوں کے ادوار