اسی ندامت سے اس کے کندھے جھکے ہوۓ ہیں
کہ ہم چھڑی کا سہارا لے کر کھڑے ہوۓ ہیں
یہاں سے جانے کی جلدی کس کو ہے تم بتاؤ
که سوٹ کیسوں میں کپڑے کس نے رکھے ہوۓ ہیں
کرا تو لوں گا علاقہ خالی میں لڑ جھگڑ کر
مگر جو اس نے دلوں په قبضے کیے ہوۓ ہیں
وہ خود پرندوں کا دانہ لینے گیا ہوا ہے
اور اس کے بیٹے شکار کرنے گئے ہوۓ ہیں
تمہارے دل میں کھلی دکانوں سے لگ رہا ہے
یه گھر یہاں پر بہت پرانے بنے ہوۓ ہیں
میں کیسے باور کراؤں جا کر یہ روشنی کو
کہ ان چراغوں پہ میرے پیسے لگے ہوۓ ہیں
تمہاری دنیا میں کتنا مشکل ہے بچ کے چلنا
قدم قدم پر تو آستانے بنے ہوۓ ہیں
تم ان کو چاہو تو چھوڑ سکتے ہو راستے میں
یہ لوگ ویسے بھی زندگی سے کٹے ہوۓ ہیں