اسے الفت کا گرچہ کچھ نہیں ادراک، دل پھر بھی
یہ بننا چاہتا ہے تیرے در کی خاک دل پھر بھی
ہے مشتِ خاک اِس کو خاک میں رکنا نہیں آتا
کرے گا آسمانوں کے یہ پردے چاک دل پھر بھی
فدا ہوتے ہوئے نقصان کو بھی بھول جاتا ہے
سمجھ رکھتا نہیں، ہے صاحبِ ادراک دل پھر بھی
حکومت جسم پر کرتا ہے گرچہ خوں کا یہ ٹکڑا
پہ بنتا جا رہا ہے نفس کی خوراک دل پھر بھی
اگرچہ جانتا ہے یہ قیامت اور محشر کو
اطاعت چھوڑنے میں ہے بہت بےباک دل پھر بھی
یہ کہتا ہے ملے دنیا، نہیں کچھ فکر آخر کی
بہت بےعقل ہے، پر بنتا ہے چالاک دل پھر بھی
رضا میں جسم کو کر دو اگر تم خاک کا پیوند
لیے پھرتا تمھیں ہو گا سرِ افلاک دل پھر بھی
معاصی کا سمندر ہے رواں، یہ جانتا بھی ہے
مگر ہے بہہ رہا بن کر خس و خاشاک دل پھر بھی
کرو گے کیا؟ حلاکت خیز ثابت ہو گا یہ سن لو
اتارے گا نہیں غفلت کی گر پوشاک دل پھر بھی
اگر شیطان کا گھر ہے، مُطَہّر ہو نہیں سکتا
کرو تطہیر زم زم سے، رہے ناپاک دل پھر بھی
کرم کرنے پہ آ جائے، نہیں ثانی کوئی اِس کا
وگرنہ سچ ہے سب سے بڑھ کے ہے سفّاک دل پھر بھی