اس بریدہ زباں شہر میں قصہ گو خوش بیاں آئے ہیں
Poet: Fahmida Riaz By: Hassan Iqbal, Karachi
اس بریدہ زباں شہر میں قصہ گو خوش بیاں آئے ہیں
 شہر والو سنو! اس سرائے میں ہم قصہ خواں آئے ہیں
 
 شہرِ معصوم کے ساکنو! کچھ فسانے ہمارے سنو
 دُور دیسوں میں ہوتا ہے کیا،ماجرے آج سارے سنو
 وہ سیہ چشم،پستہ دہن،سیم تن، نازنیں عورتیں
 
 وہ کشیدہ بدن، سبز خط ، خوش قطع، ماہ رُو نوجواں
 اور وہ جادوگری ان کی تقدیر کی
 وہ طلسمات، سرکار کی نوکری
 اک انوکھا محل
 جس گزرا تو ہر شاہزادے کا سر، خوک کا بن گیا
 درس گاہوں میں وہ جوق در جوق جاتے ہوئے نوجواں
 وہ تبسم فشاں ان کی پیشانیاں، ہائے کھوئی کہاں
 آن کی آن میں پِیر اتنے ہوئے
 ضعف سے ان کی مژگاں تلک جھڑگئیں
 جسم کی روح پر جھریاں پڑ گئیں
 اور وہ شہزادیاں
 کچی عمروں میں جو سیر کرنے گئیں
 باغ کا وہ سماں
 عشق کے پھول کھلتے ہوئے دُور تک ریشمی گھاس میں
 وہ فسوں ساز خوشبو، بھٹکتی ہوئی ان کے انفاس میں
 افسروں اور شاہوں کی آغوش میں
 ان کے نچلے بدن کیسے پتھرا گئے
 
 وہ عجب مملکت
 جانور جس پہ مدت سے تھے حکمراں
 گو رعایا کو اس کا پتہ تک نہ ےھا
 اور تھا بھی تو بے بس تھے ، لاچار تھے
 ان میں جو اہل ِ دانش تھے، مدت ہوئی مر چکے تھے
 جو زندہ تھے، بیمار تھے
 
 کچھ عجب اہل ِ فن بھی تو تھے اس جگہ
 سامری سِحر کے روگ میں مبتلا
 خلعتِ شاہ تھی ان کی واحد دوا
 بیشتر قابِ سلطان کے خوشہ چیں
 گیت لکھتے رہے، گیت گاتے رہے
 عہدِ زرّیں کے ڈنکے بجاتے رہے
 
 کن وزیروں سے ان کی رقابت رہی
 اور کام آئی کس کس کے جادو گری
 شاہ کا جب کھٹولا اڑایا تو پھر
 کیا ہوئی وہ پری
 
 جمع کرتے تھے ہم 
 ایک رنگیں فسانہ، عجب داستاں
 آستینوں میں دفتر نہاں لائے ہیں
 شہر والو سنو
کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں
کوئی آواز سی ہے مرثیہ خواں
شہر کا شہر بنا گورستاں
ایک مخلوق جو بستی ہے یہاں
جس پہ انساں کا گزرتا ہے گماں
خود تو ساکت ہے مثال تصویر
جنبش غیر سے ہے رقص کناں
کوئی چہرہ نہیں جز زیر نقاب
نہ کوئی جسم ہے جز بے دل و جاں
علما ہیں دشمن فہم و تحقیق
کودنی شیوۂ دانش منداں
شاعر قوم پہ بن آئی ہے
کذب کیسے ہو تصوف میں نہاں
لب ہیں مصروف قصیدہ گوئی
اور آنکھوں میں ہے ذلت عریاں
سبز خط عاقبت و دیں کے اسیر
پارسا خوش تن و نو خیز جواں
یہ زن نغمہ گر و عشق شعار
یاس و حسرت سے ہوئی ہے حیراں
کس سے اب آرزوئے وصل کریں
اس خرابے میں کوئی مرد کہاں
جو میرے لوح دل پر تو نے کبھی بنایا
تھا دل جب اس پہ مائل تھا شوق سخت مشکل
ترغیب نے اسے بھی آسان کر دکھایا
اک گرد باد میں تو اوجھل ہوا نظر سے
اس دشت بے ثمر سے جز خاک کچھ نہ پایا
اے چوب خشک صحرا وہ باد شوق کیا تھی
میری طرح برہنہ جس نے تجھے بنایا
پھر ہم ہیں نیم شب ہے اندیشۂ عبث ہے
وہ واہمہ کہ جس سے تیرا یقین آیا
تو نخ بہ نخ کہیں پیوست ریشۂ دل تھا
مجھے مآل سفر کا ملال کیوں کر ہو
کہ جب سفر ہی مرا فاصلوں کا دھوکا تھا
میں جب فراق کی راتوں میں اس کے ساتھ رہی
وہ پھر وصال کے لمحوں میں کیوں اکیلا تھا
وہ واسطے کی ترا درمیاں بھی کیوں آئے
خدا کے ساتھ مرا جسم کیوں نہ ہو تنہا
سراب ہوں میں تری پیاس کیا بجھاؤں گی
اس اشتیاق سے تشنہ زباں قریب نہ لا
سراب ہوں کہ بدن کی یہی شہادت ہے
ہر ایک عضو میں بہتا ہے ریت کا دریا
جو میرے لب پہ ہے شاید وہی صداقت ہے
جو میرے دل میں ہے اس حرف رایگاں پہ نہ جا
جسے میں توڑ چکی ہوں وہ روشنی کا طلسم
شعاع نور ازل کے سوا کچھ اور نہ تھا
یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل
یہ کیف کیا ہے کہ سانس رک رک کے آ رہا ہے
یہ میری آنکھوں میں کیسے شہوت بھرے اندھیرے اتر رہے ہیں
لہو کے گنبد میں کوئی در ہے کہ وا ہوا ہے
یہ چھوٹتی نبض، رکتی دھڑکن، یہ ہچکیاں سی
گلاب و کافور کی لپٹ تیز ہو گئی ہے
یہ آبنوسی بدن، یہ بازو، کشادہ سینہ
مرے لہو میں سمٹتا سیال ایک نکتے پہ آ گیا ہے
مری نسیں آنے والے لمحے کے دھیان سے کھنچ کے رہ گئی ہیں
بس اب تو سرکا دو رخ پہ چادر
دیے بجھا دو
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
تم چاند سے ماتھے والے ہو
اور اچھی قسمت رکھتے ہو
بچے کی سو بھولی صورت
اب تک ضد کرنے کی عادت
کچھ کھوئی کھوئی سی باتیں
کچھ سینے میں چبھتی یادیں
اب انہیں بھلا دو سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
سو جاؤ تم شہزادے ہو
اور کتنے ڈھیروں پیارے ہو
اچھا تو کوئی اور بھی تھی
اچھا پھر بات کہاں نکلی
کچھ اور بھی یادیں بچپن کی
کچھ اپنے گھر کے آنگن کی
سب بتلا دو پھر سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
یہ ٹھنڈی سانس ہواؤں کی
یہ جھلمل کرتی خاموشی
یہ ڈھلتی رات ستاروں کی
بیتے نہ کبھی تم سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 