اس عالم حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
Poet: Saleem Kausar By: shabeer, khi
اس عالم حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا 
 کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا 
 
 اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا 
 ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا 
 
 اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں 
 ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کار ثواب نہیں ہوتا 
 
 مرے چار طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن 
 کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بے تاب نہیں ہوتا 
 
 یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے 
 کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا کبھی سچا خواب نہیں ہوتا 
 
 کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے 
 کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا 
 
 مری باتیں جیون سپنوں کی مرے شعر امانت نسلوں کی 
 میں شاہ کے گیت نہیں گاتا مجھ سے آداب نہیں ہوتا 
 
  
More Saleem Kausar Poetry
قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں 
کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں
کون سی آنکھوں میں میرے خواب روشن ہیں ابھی
کس کی نیندیں ہیں جو میرے رتجگوں میں قید ہیں
شہر آبادی سے خالی ہو گئے خوشبو سے پھول
اور کتنی خواہشیں ہیں جو دلوں میں قید ہیں
پاؤں میں رشتوں کی زنجیریں ہیں دل میں خوف کی
ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں قید ہیں
یہ زمیں یوں ہی سکڑتی جائے گی اور ایک دن
پھیل جائیں گے جو طوفاں ساحلوں میں قید ہیں
اس جزیرے پر ازل سے خاک اڑتی ہے ہوا
منزلوں کے بھید پھر بھی راستوں میں قید ہیں
کون یہ پاتال سے ابھرا کنارے پر سلیمؔ
سرپھری موجیں ابھی تک دائروں میں قید ہیں
کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں
کون سی آنکھوں میں میرے خواب روشن ہیں ابھی
کس کی نیندیں ہیں جو میرے رتجگوں میں قید ہیں
شہر آبادی سے خالی ہو گئے خوشبو سے پھول
اور کتنی خواہشیں ہیں جو دلوں میں قید ہیں
پاؤں میں رشتوں کی زنجیریں ہیں دل میں خوف کی
ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں قید ہیں
یہ زمیں یوں ہی سکڑتی جائے گی اور ایک دن
پھیل جائیں گے جو طوفاں ساحلوں میں قید ہیں
اس جزیرے پر ازل سے خاک اڑتی ہے ہوا
منزلوں کے بھید پھر بھی راستوں میں قید ہیں
کون یہ پاتال سے ابھرا کنارے پر سلیمؔ
سرپھری موجیں ابھی تک دائروں میں قید ہیں
ali
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے 
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
vaneeza
اس عالم حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا  اس عالم حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا 
کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا
اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا
اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کار ثواب نہیں ہوتا
مرے چار طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بے تاب نہیں ہوتا
یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا کبھی سچا خواب نہیں ہوتا
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
مری باتیں جیون سپنوں کی مرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا مجھ سے آداب نہیں ہوتا
 
کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا
اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا
اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کار ثواب نہیں ہوتا
مرے چار طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بے تاب نہیں ہوتا
یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا کبھی سچا خواب نہیں ہوتا
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
مری باتیں جیون سپنوں کی مرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا مجھ سے آداب نہیں ہوتا
shabeer
ابھی حیرت زیادہ اور اجالا کم رہے گا  ابھی حیرت زیادہ اور اجالا کم رہے گا 
غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا
مری وحشت پہ صحرا تنگ ہوتا جا رہا ہے
کہا تو تھا یہ آنگن لا محالہ کم رہے گا
بھلا وہ حسن کس کی دسترس میں آ سکا ہے
کہ ساری عمر بھی لکھیں مقالہ کم رہے گا
بہت سے دکھ تو ایسے بھی دیے تم نے کہ جن کا
مداوا ہو نہیں سکتا ازالہ کم رہے گا
وہ چاندی کا ہو سونے کا ہو یا پھر ہو لہو کا
سلیمؔ اہل ہوس کو ہر نوالہ کم رہے گا
 
غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا
مری وحشت پہ صحرا تنگ ہوتا جا رہا ہے
کہا تو تھا یہ آنگن لا محالہ کم رہے گا
بھلا وہ حسن کس کی دسترس میں آ سکا ہے
کہ ساری عمر بھی لکھیں مقالہ کم رہے گا
بہت سے دکھ تو ایسے بھی دیے تم نے کہ جن کا
مداوا ہو نہیں سکتا ازالہ کم رہے گا
وہ چاندی کا ہو سونے کا ہو یا پھر ہو لہو کا
سلیمؔ اہل ہوس کو ہر نوالہ کم رہے گا
hussain
Pahale Pahal To Khwabon Ka Dam Bharne Lagti Hai Pahale Pahal To Khwabon Ka Dam Bharne Lagti Hai
Phir Aankhen Palkon Mein Chup Kar Rone Lagti Hai
Jane Tab Kyon Suraj Ke Khvahish Karte Hain Log
Jab Barish Mein Sab Divaren Girane Lagti Hai
Tasviron Ka Rog Bhi Aakhir Kaisa Hota Hai
Tanhai Mein Baat Karo To Bolane Lagti Hai
Sahil Se Takarane Vali Vahashi Maujen Bhi
Zinda Rahane Ke Khvahish Mein Marane Lagti Hai
Tum Kya Jano Lafzon Ke Aazar Ke Shiddat Ko
Yaden Tak Sochon Ke Aag Mein Jalne Lagti Hai
 
Phir Aankhen Palkon Mein Chup Kar Rone Lagti Hai
Jane Tab Kyon Suraj Ke Khvahish Karte Hain Log
Jab Barish Mein Sab Divaren Girane Lagti Hai
Tasviron Ka Rog Bhi Aakhir Kaisa Hota Hai
Tanhai Mein Baat Karo To Bolane Lagti Hai
Sahil Se Takarane Vali Vahashi Maujen Bhi
Zinda Rahane Ke Khvahish Mein Marane Lagti Hai
Tum Kya Jano Lafzon Ke Aazar Ke Shiddat Ko
Yaden Tak Sochon Ke Aag Mein Jalne Lagti Hai
Fahad







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 