اس ملک میں تماشے عجیب ہو رہے ہیں
امیر اور امیر ، غریب اور غریب ہو رہے ہیں
ملک کی خاطر نہ قوم کی خاطر
دشمنِ جاں اک دوسرے کے قریب ہو رہے ہیں
شاد ہیں وہ سب جو ڈالرز میں کھیلتے ہیں
بُرے عوام کے مگر نصیب ہو رہے ہیں
گلے شکوے سب بھلا کر شیر و شکر ہوئے ہیں
ہم جن کی خاطر ایک دوسرے کے رقیب ہو رہے ہیں
کب، کیسے اور کون بدلے گا میرے ملک کی تقد یر کاشف
حالات دیکھ کر اشک خوں کے دل سے شکیب ہو رہے ہیں