اس کی گلی میں جب مرا جانا بہت ہوا
ناراض مجھ سے یار کا نانا بہت ہوا
پھر ساری عمر بیوی سے ڈرتا رہا میاں
دو چار بار ساس کا آنا بہت ہوا
حالت تو خیر ہو گئی پتلی عوام کی
لیڈر کا کاروبار توانا بہت ہوا
سب اس کے بعد لذتِ آوارگی گئی
ہم کو تو ایک رات کا"تھانہ" بہت ہوا
انگلی اٹھائی خادمِ اعلیٰ نے جس گھڑی
کم زور افسروں کا مثانہ بہت ہوا
گندے ٹماٹروں کی وہ بارش ہوئی کہ بس
شاعر کا اک غزل ہی سنانا ، بہت ہوا
کھانے پر اس نے ہم کو بلایا کبھی نہیں
"مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا"
فرفر سنائی اس نے سبھی داستانِ عشق
عاشق کے سر پہ دھول جمانا بہت ہوا
اس کا بھی آگیا ہمیں بل دس ہزار کا
بس ایک بلب ہم کو جلانا بہت ہوا
اب بھی ہمیں رلاتا ہے کہنا"قبول ہے"
یہ حادثہ اگرچہ پرانا بہت ہوا
فرمائشیں تو آتی ہیں پردیس میں بہت
کہتا نہیں کوئی کہ کمانا بہت ہوا
اس مصرعہء طرح پہ لکھو اب کوئی غزل
چھوڑو نوید! ہنسنا ہنسانا بہت ہوا