کچہ لوگ زمانے میں گمنام سے رہتے ہیں
بے شک وہ زیشاں ہیں پر عام سے رہتے ہیں
تکلیف میں ہو کوئی درد اپنا سمجھتے ہیں
حالات کی سنگینی اک سپنا سمجھتے ہیں
دراصل فرشتہ ہیں انسان سے رہتے ہیں
بے شک وہ زیشاں ہیں پر عام سے رہتے ہیں
مسند فردوس بریں اور گم ہیں ہستی میں
تحفہ ہیں یہ قدرت کا انسانوں کی بستی میں
کیا خوب کہ دنیا میں مہمان سے رہتے ہیں
بے شک وہ زیشاں ہیں پر عام سے رہتے ہیں
صدیقی کو اے مالک یہ راہیں بھی دکھلا دے
برباد گلستاں کو اک بار تو مہکا دے
اجڑی ہوئی دنیا میں بدنام سے رہتے ہیں
بے شک وہ زیشاں ہیں پر عام سے رہتے ہیں