اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے
کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے
میں اس کے خیال سے گریزاں
وہ میری صدا جھٹک رہا ہے
تحریر اسی کی ہے مگر دل
خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے
ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں
اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے
صدیوں سے سفر میں ہے سمندر
ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے
اک چاند صلیب شاخ گل پر
بالی کی طرح لٹک رہا ہے