جو ہمیں پڑھاتے ہیں خود وہیں رہے جاتے ہیں
کیوں چڑھتے ہی پروان ہم اُنہیں بھول جاتے ہیں
کچھ نہ دے سکے اُن کو اعتراف تو کریں اُن کا
احسان ہے بڑا ہم پر احترام تو کریں اُن کا
وہ رہیں سلامت ضرورت اُن کی صدا رہیگی
بھٹکا اگر کہیں تو اُن کی روشنی راستہ بنے گی
دن اُن کے کچھ یوں پھیرا دے اے مولا
تو رحمت کے دریا بھا دے اے مولا
کر نظرِ کرم ہر مصیبت سے پہلے
عطا ہو جو چاہیں ہاتھ اُٹھنے سے پہلے
ہے اگر علم دریا تو کر دے سمندر
بدل کچھ اس طرح سے تحریم کا مُقدر