چاہے اب ہاتھ کٹیں، سر ہو قلم، لکھیں گے
جو نہ دیوار پہ آئے گا، وہ ہم لکھیں گے
کوئی سچائی پسِ پردہ رہے ناممکن
آئینے عکس دکھائیں گے، قلم لکھیں گے
نہ کوئی طعن، نہ دشنام، نہ کوئی الزام
تم ستم گرہو، تمھیں اہل ستم لکھیں گے
اب کوئی راز کہیں راز نہ رہ پائے گا
رہ نما کوئی دغاباز نہ رہ پائے گا
جن کے اظہار سے عاجز رہے سرگوشی بھی
راز وہ چیخ کی صورت میں سنائی دیں گے
ایک مُدت سے جو منظر تھے فقط پرچھائیں
صاف تصویر کی صورت میں دکھائی دیں گے
جو لہو خاک میں گُم ہوتا رہا برسوں سے
روئے قاتل بنا دھرتی پہ اُبھرآئے گا
نقشِ پا ابھریں گے مٹی پہ لٹیروں کے یوں
ہر کمیں گہ کا نشاں صاف نظر آئے گا
انگلیاں اُٹھیں گی مجبوروں کی، بے خوف وخطر
خونیوں، ڈاکوؤں اور راہ زنوں کی جانب
ہر نگہ لے کے سوالات کئی اُٹھے گی
پاسبانوں کی طرف، تاج وروں کی جانب