جہاں خوشیاں مناتا ہے اسے افسوس ہوتا ہے
میرے آقا کی آمد پر بہت ابلیس روتا ہے
جوں ہی ماہ ربیع اول کا نکلے چاند پہلی کا
تو وہ اس دن سے ہی اپنی الٹ کر کھاٹ سوتا ہے
اسے بھی یاد تو ہوتی ہے یہ تاریخ بارہ کی
مگر میلاد کےالفاظ سے بیزار ہوتا ہے
اسے گر کچھ پسند آتا ہے تو بس وقت رخصت ہی
میرے آقا کے ٹکڑے کھا کے یہ خبیث سوتا ہے
اسے اپنے سبھی بچوں کے دن تو یاد رہتے ہیں
وہ کب, کس سال اور کس وقت اسکے گھر میں ہوتا ہے
دلیلیں ڈھونڈتا ہے دوسروں کو روک لینے کی
مگر مجھ سے غلاموں سےہمیشہ دور ہوتا ہے
بہت حیران ہوتا ہوں کہ جن کی مہربانی سے
وہ بیٹھا ناؤ میں طاہر!مگر اس کو ڈبوتا ہے