وہ دن تو اب پرانے ہو گئے
ماضی کے یوں افسانے ہو گئے
وہ شاعر جو محفلیں سجاتے تھے
اُنہیں دیکھے اب زمانے ہو گئے
چلو آؤ بزمِ سُخن پھر سے سجاتے ہیں
چھوڑو تنہائیاں اب بہت بہانے ہو گئے
چلو محبت کی راہ پہ چلتے ہیں
بہت غلط نشانے ہو گئے
غالؔب تیری غزلیں پڑھ کر
اقبالؔ کے شاہین دیوانے ہو گئے
جو چُن لیا شاعری کا راستہ
تو دل و جان محبت کے خزانے ہو گئے
اب تو داد دو میرے اشعار پہ
کم سُخن یہاں سے روانے ہو گئے
رو کر ساقی مجھے کہنے لگا
ارسلؔان تیرے جانے سے خالی میخانے ہو گئے