اقبال تیرے خواب کو فقط تعبیر ملی ہے
تکمیل کہیں دور بہت دور ہوئی ہے
غنڈوں ،لٹیروں کا ہر سو ہے بسیرا
حاکم تو یہاں فقط تخت نشیں ہے
مسلماں تو ڈھونڈے سے ملتا نہیں یہاں
مومن کی تو جیسے قلت سی پڑی ہے
ذرخیز تھا ذہن ، خودی بھی تھی فولادی
پر طشت میں جواں کو فقط موت ملی ہے
غلامی ہے ابھی جاری فقط بدلہ ہےزمانہ
فرنگی کی حکومت اب مسلماں کو ملی ہے