لوٹا گیا گلشن میں بہاروں کو سرِ عام
مارا گیا شب خون اجالوں پہ سرِ عام
روندا گیا معصوم اداؤں کو سرِ عام
کھنچا گیا بہنوں کی رداؤں کو سرِعام
داغا گیا جسموں کو سلاخوں سے سرعام
مارا گیا مفروضی خطاؤں پہ سرعام
پکڑا گیا نا کردہ گناہوں پہ سرعام
ہر گام پہ خوشیاں تھیں گلابوں کی مہک تھی
چاہت کے اجالوں میں محبت کی دمک تھی
کلیوں میں تبسم لیے کومل سی لچک تھی
غنچوں میں شرارت بھری معصوم چٹک تھی
تتلی کو لبھائے وہ شگوفوں کی دھنک تھی
جگنو کی اندھیروں میں وہ اتراتی چمک تھی
فرحت بھرے جھونکوں میں سحر خیز خنک تھی
رنگوں سے نکھرتا ہوا روشن یہ جہاں تھا
الفت تھی فضاؤں میں محبت کا سماں تھا
رونق تھی، سکوں تھا گلی کوچوں میں اماں تھا
خوشحالی کا اک راز ہوا سب پہ عیاں تھا
حاسد کو نہ بھایا کہ بخض دل میں نہاں تھا
وہ چال چلی شہر میں بارود دھواں تھا
سڑکوں پہ تکبر زدہ بوٹوں کی دھمک تھی
بھڑکے ہوئے شعلوں میں تعصب کی لپک تھی
روتے ہوئے بچوں میں یتیمی کی کسک تھی
زنداں میں مچلتی ہوئی بیڑی کی کھنک تھی
حسرت زدہ چہروں پہ یاں ماتم کی بلک تھی
فرعون کے لہجے میں خدائی کی جھلک تھی
تاراج کرئے شہر کو یہ اسکو سنک تھی
جھوٹے کی زباں پر جو صداقت کی بڑک تھی
لے جائے قبر تک وہ بچی ایک سڑک تھی
سب کچھ تھا مگر دل میں بھی قائد کی دھڑک تھی
فرعون کے قہر کے سجے دربار یہاں پر
گر کر بکے ظالم سر بازار یہاں پر
پیسوں سے خریدے گئے غدار یہاں پر
اپنے بھی پرائے ہوئے اغیار یہاں پر
چھوڑے گئے انسانوں پہ خونخوار یہاں پر
خاموش تماشائی تھے سب یار یہاں پر
رستے میں اٹھا دی گئی دیوار یہاں پر
جلتے رہے میرے در دیوار یہاں پر
ڈھائے گئے مجبور کے گھر بار یہاں پر
انصاف بھی ملنا ہوا دشوار یہاں پر
رونا بھی تھا تکلیف میں بیکار یہاں پر
متوالے نہ پھر بھی ہوئے بیزار یہاں پر
نظروں نے عجب دیکھے تھے شہکار یہاں پر
روشن تھے اندھیروں میں جو مینار یہاں پر
گرتے ہوئے دیکھی گئی سرکار یہاں پر
ذلت کے اندھیروں میں وہ غدار ہوئے گم
طوفاں کے تھپیڑوں سے وہ دربار گئے ڈوب
رستے کی وہ دیوار تھی جذبوں نے گرا دی
نفرت کے وہ سب تیر محبت سے گئے ٹوٹ
روندا تھا میرے شہر کو جس جس نے یہاں پر
اب انکے ٹھکانوں میں قیامت کی مچی لوٹ
کل تک جو فراعیں خدا بن کے جیئے تھے
وہ آج رہے ہیں کسی زنداں کے مزے لوٹ
قائد کی بدولت یہ سحر ہم کو ملی ہے
قائد کے عمل ہی سے ہوا سچ اسے الگ جھوٹ
ہونٹوں کے قفل توڑ دیئے فکر رساء نے
وردی کا نہ اب خوف نہ دہشت کا نشاں بوٹ
ظلمت نے جکڑ رکھا تھا جنکو یہاں اشہر
قائد کی فراست سے وہ مظلوم گئے چھوٹ