انکی گلی میں کیا کچھ دیکھا پوچھنے والی بات نہیں
کھینچ سکوں الفاظ سے نقشہ اتنی میری اوقات نہیں
کوئی پردہ حائل نہ تھا بندے اور معبود میں اس شب
طیبہ میں جو گزری یارو اس جیسی کوئی رات نہیں
انکی چوکھٹ چوم کے اے دل سر نہ اٹھانا بُھولے سے
سانسیں رکتی ہیں رک جائیں اشکوں کی برسات نہیں
انکے کرم سے میں بیٹھا تھا انکے ریاضِ جنت میں
دامن میں تھے اشکِ ندامت اور کوئی سوغات نہیں
میرے خالق تو واقف ہے دل میں پوشیدہ باتوں سے
میری طلب تو انکی گلی ہے جنت کے باغات نہیں
رحمتِ عالم پھر سے بُلا لو مجھ کو طیبہ نگری میں
دل دیوانہ مچل اٹھا ہے قابو میں جذبات نہیں
انکا دامن تھامنے والو تم کو مبارک بخشش کی
اُن بِن شافع روزِ محشر اور تو کوئی ذات نہیں
انکی نسبتِ پاک کے صدقے رب نے مجھ کو چھوڑ دیا
ورنہ تو اعمال میں اپنے چھٹنے والی بات نہیں