ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیئے ہیں
جب آگئی ہےں جوشِ رحمت پہ ان کی آنکھیں
جلتے بجھا دیئے ہیں روتے ہنسا دیئے ہیں
اک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا
تم نے تو چلتے پھرتے مردے جِلا دیئے ہیں
ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آگئے ہیں سب غم بھلا دیئے ہیں
ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گے
اب تو غنی کے در پر بستر جما دیئے ہیں
اسراء میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے
ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیئے ہیں
آنے دو یا ڈبو دو اب تو تمہاری جانب
کشتی تمہیں پہ چھوڑی لنگر اٹھا دیئے ہیں
دولہا سے اتنا کہہ دو پیارے سواری روکو
مشکل میں ہیں باراتی پرخار با دیئے ہیں
اﷲ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہو گا
رو رو کے مصطفےٰ نے دریا بہا دیئے ہیں
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیئے ہیں ردبے بہا دیئے ہیں
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلّم
جس سمت آگئے ہو سِکّے بٹھا دیئے ہیں