انہیں خوش فہمی ہے کہ ان کے پرستار بہت ہیں
اسی لیےان دنوں وہ رہتے بیمار بہت ہیں
ہمیں ان کی غلامی کے سوا کچھ اچھا نہیں لگتا
ویسے کرنے کے لیے تو کاروبار بہت ہیں
انہیں میری نیت پہ کبھی شک ہو نہیں سکتا
میں جانتا ہوں وہ مجھ پہ کرتےاعتبار بہت ہیں
تم سے مراسم نہ رہے تو یہ بھید کھلا
کہ دنیا میں ہمارے بھی خریدار بہت ہیں
کبھی اصغر کو بھی زرا آزما کے دیکھ لو
کہتے ہیں تمہارے شہر میں شاعر بہت ہیں