بڑے بزدل، میرے دشمن
یہ دن کیا یاد ہے تجھ کو
یہ وہ صبح ہے، وہی دن دن ہے
کہ میں جب پڑھنے آیا تھا
میری آنکھیں بھی روشن تھیں
میرا چہرہ بھی ہنستا تھا
لبوں پہ مسکراہٹ تھی
میرے کاندھوں پہ بستہ تھا
محبت سے میری ماں نے
آخری لقمہ کھلایا تھا
یہ وہ صبح ہے، وہی دن دن ہے
کہ میں جب پڑھنے آیا تھا
تیرے ہاتھوں بندوقیں
تیری آنکھوں میں نفرت تھی
تیرے چہرے پہ وحشت تھی
کفر کی دل میں کثرت تھی
خوش رنگ مہکتے پھولوں کو
مٹی میں تو نے ملایا تھا
میری ماﺅں، میری بہنوں کو
خون کے اشک رلایا تھا
نفرت کا تو نے یہ جھنڈا
میرے سینے پہ گاڑا تھا
میں تو پڑھنے آیا تھا
بھلا کیا
میں نے بگاڑا تھا
بڑے لاڈوں ، بڑے نازوں سے
کبھی جن پہ بٹھایا تھا
انہی کاندھوں پہ بابا نے
میرا لاشہ اُٹھایا تھا
نئے پھولوں کی شکلوں میں
اُبھر کے پھر سے آیا ہوں
نئی ہمت ، نئے جذبوں سے
پڑھنے گھر سے آیا ہوں
میں ہو ں اقبال کا شاہین
مجھے کیا خاک ڈرائے گا
بڑے بزدل، میرے دشمن
ہمیشہ منہ کی کھائے گا