اٹھ کے کپڑے بدل گھر سے باہر نکل جو ہوا سو ہوا
Poet: Nida Fazli By: Ahmer, multan
اٹھ کے کپڑے بدل گھر سے باہر نکل جو ہوا سو ہوا
رات کے بعد دن آج کے بعد کل جو ہوا سو ہوا
جب تلک سانس ہے بھوک ہے پیاس ہے یہ ہی اتہاس ہے
رکھ کے کاندھے پہ ہل کھیت کی اور چل جو ہوا سو ہوا
خون سے تر بہ تر کر کے ہر رہ گزر تھک چکے جانور
لکڑیوں کی طرح پھر سے چولھے میں جل جو ہوا سو سوا
جو مرا کیوں مرا جو لٹا کیوں لٹا جو جلا کیوں جلا
مدتوں سے ہیں گم ان سوالوں کے حل جو ہوا سو ہوا
مندروں میں بھجن مسجدوں میں اذاں آدمی ہے کہاں
آدمی کے لیے ایک تازہ غزل جو ہوا سو ہوا
More Nida Fazli Poetry
Kabhi Kisi Ko Mukammal Jahan Nahi Milta Kabhi Kisi Ko Mukammal Jahan Nahi Milta
kahin zameen tu kahin aasman nahi milta
jisay bhi dekhiye wo apnay aap main gum hai
zuban mili hai magar ham zuban nahi milta
bujha saka hai bhalla kon waqt kay sholly
ye aisi aag hai jis main dhuwan nahi milta
tery jahan main aisa nahi keh piyar na ho
jahan umeed ho iss ki wahan nahi milta
kahin zameen tu kahin aasman nahi milta
jisay bhi dekhiye wo apnay aap main gum hai
zuban mili hai magar ham zuban nahi milta
bujha saka hai bhalla kon waqt kay sholly
ye aisi aag hai jis main dhuwan nahi milta
tery jahan main aisa nahi keh piyar na ho
jahan umeed ho iss ki wahan nahi milta
Faiz Aalam
باپ کی موت پر شاعری اپنے والد کی وفات پر کہی گئی ایک بہت ہی جذباتی نظم
تمہاری قبر پر
میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی
وہ جھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سوکھا ہوا پتہ ہوا سے مل کے ٹوٹا تھا
مری آنکھیں
تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں
وہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمہاری
لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمہارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے
وہ جھوٹا ہے
تمہاری قبر میں میں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
تمہاری قبر پر
میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی
وہ جھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سوکھا ہوا پتہ ہوا سے مل کے ٹوٹا تھا
مری آنکھیں
تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں
وہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمہاری
لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمہارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے
وہ جھوٹا ہے
تمہاری قبر میں میں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
محمد رضوان
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالم
ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے
برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے
یہ وقت جو تیرا ہے یہ وقت جو میرا ہے
ہر گام پہ پہرا ہے پھر بھی اسے کھونا ہے
غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں
پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے
آوارہ مزاجی نے پھیلا دیا آنگن کو
آکاش کی چادر ہے دھرتی کا بچھونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالم
ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے
برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے
یہ وقت جو تیرا ہے یہ وقت جو میرا ہے
ہر گام پہ پہرا ہے پھر بھی اسے کھونا ہے
غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں
پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے
آوارہ مزاجی نے پھیلا دیا آنگن کو
آکاش کی چادر ہے دھرتی کا بچھونا ہے
راحیل
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑ اے ہم نشیں کیفیت صہبا کے افسانے
شراب بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
رہا کرتے ہیں قید ہوش میں اے وائے ناکامی
وہ دشت خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑ اے ہم نشیں کیفیت صہبا کے افسانے
شراب بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
رہا کرتے ہیں قید ہوش میں اے وائے ناکامی
وہ دشت خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
Umer






