اپنوں سے ہی دھوکے اکثر ہم نے تو کھائے ہیں
کل تک جو تھے میرے ہوئے آج پرائے ہیں
مانا کہ نشانی تھی اسلاف کی کیا کرتا
کچے تھے مکاں جو اب مشکل سے گرائے ہیں
آئی نہیں ہے اس کو تو راس محبت بھی
ہیں زخم تو تازہ جو اس نے یہ دکھائے ہیں
وہ بھول گیا ہے باتیں اپنی محبت کی
ہم اس کی محبت اب تک بھول نہ پائے ہیں
کرتا وہ رہا ہے گھائل اپنی اداؤں سے
ہر بار نئے اس نے تو زخم لگائے ہیں
ممکن تھا نہیں بھولانہ اس کو ہے وہ دل میں
مشکل سے ابھی یادوں کے نقش مٹائے ہیں
جب لمس ہیں چھوئے ان کے کچھ نہ کہا اس نے
شہزاد تبھی زلفوں میں پھول سجائے ہیں