اپنی الفت سے منور مرا سینہ کر دے
یثربِ دل کو کسی طور مدینہ کر دے
میری انگلی میں انگوٹھی ہے سفر کی آقا
اس میں پیوست مدینے کا نگینہ کر دے
تیری توصیف کے ڈھب سے ہے قلم ناواقف
اس کو آراستہ ء حسن و قرینہ کر دے
ناصیہ سائی کی خاطر یہ جبیں بے کل ہے
اس کی تقدیر میں دربار کا زینہ کر دے
میں کُجا اور کُجا عشقِ اویسِ قرَنی
وَرۡد کو خاکِ رہِ شہرِ مدینہ کر دے