اپنے دل میں اُسے میں نے بسایا ہے
بن کے دھڑکن وہ مرے دل میں سمایا ہے
تیرگی ہوتی نہیں ہے زندگی میں میری
اُس کی یاد کا ہر پل دیا جلایا ہے
جب بھی کبھی وہ مرے پاس آیا ہے
اُس کی راہ میں اپنی پلکوں کو بچھایا ہے
وہ مری جاں ہے ، زندگی ہے مری
اُس پہ اپنا سب کچھ اپنا میں نے لُٹایا ہے
جب بھی رُوٹھا ہے وہ سنگدل مجھ سے
میں نے ہی ہر بار اُسے منایا ہے
مری محبت پہ اب تو یقیں کر لو
قدم قدم پہ تُو نے اسے آزمایا ہے
جان و دل سے فدا ہے تُو جس پر کاشف
عمر بھر اُسی نے تجھے ستایا ہے