اپنے میں اقتداد میں گم ہوں
میں تو لیل و نہار میں گم ہوں
اپنے بیگانے کی نہیں پہچان
شان و شوکت وقار میں گم ہوں
ہارا ہوں جان بوچھ کر ہی میں
جیتنے والے ہار میں گم ہوں
بے وفائی نہیں ہوئی کوئی
پیار کے. اعتبار میں گم ہوں
رات دن محو ہوں خیالوں میں
سوزِ ہجراں خمار میں گم ہوں
بیچ رہے ہیں وطن کی مٹی وہ
سر فروشاں دیار میں گم ہوں
ہورہا ہے تباہ اپنا چمن
خستہ حالت بگاڑ میں گم ہوں
آٹا چینی کا بھاؤ مت پوچھو
لمبی لمبی قطار میں گم ہوں
گم ہوں شہزاد زینہارِ دل
ہو گیا اپنے پیار میں گم ہوں