اچانک تری یاد کا سلسلہ
اندھیرے کی دیوار بن کے گرا
ابھی کوئی سایہ نکل آئے گا
ذرا جسم کو روشنی تو دکھا
پڑا تھا درختوں تلے ٹوٹ کر
چمکتی ہوئی دھوپ کا آئنہ
کوئی اپنے گھر سے نکلتا نہیں
عجب حال ہے آج کل شہر کا
میں اس کے بدن کی مقدس کتاب
نہایت عقیدت سے پڑھتا رہا
یہ کیا آپ پھر شعر کہنے لگے
ارے یار علویؔ یہ پھر کیا ہوا