اچھاتھاکہ ہم اپنی ہی اس ذات میں رہتے
دل میں نہیں تو کیا تری بات میں ر ہتے
کیوں افشا کیئے راز یوں اپنی حیات کے
ممکن نہیں تھا کیا اپنی اوقات میںرہتے
اب راکھ نہ کردے ترے یہ قرب کی ٹھنڈک
بہتر تھا اس سے ہجر کے لمحات میں رہتے
جو لفظ قد ر کھو گئے ا ند ا ز بیا ں سے
اچھا تھا ڈائری کے ہی صفحات میں رہتے
وہ پل جو حقیقت میں بنے با عث تکلیف
اےکاش وہ خوابوں سے سجی رات میںرہتے
نہ سیکھتے ان سے یہ محبت کے حر ف تو
بے ا عتبا ر ی کے نہ پھر حا لا ت میں ر ہتے
ان وحشتوں سے واسطہ ہوتا نہیں غزل
دا نستہ سہی ا لجھے روایات میں رہتے