اچھا ہوا کہ میرا نشہ بھی اتر گیا
تیری کلائی سے یہ کڑا بھی اتر گیا
وہ مطمئن بہت ہے مرا ساتھ چھوڑ کر
میں بھی ہوں خوش کہ قرض مرا بھی اتر گیا
رخصت کا وقت ہے یوں ہی چہرہ کھلا رہے
میں ٹوٹ جاؤں گا جو ذرا بھی اتر گیا
بیکس کی آرزو میں پریشاں ہے زندگی
اب تو فصیل جاں سے دیا بھی اتر گیا
رو دھو کے وہ بھی ہو گیا خاموش ایک روز
دو چار دن میں رنگ حنا بھی اتر گیا
پانی میں وہ کشش ہے کہ اللہ کی پناہ
رسی کا ہاتھ تھامے گھڑا بھی اتر گیا
وہ مفلسی کے دن بھی گزارے ہیں میں نے جب
چولھے سے خالی ہاتھ توا بھی اتر گیا
سچ بولنے میں نشہ کئی بوتلوں کا تھا
بس یہ ہوا کہ میرا گلا بھی اتر گیا
پہلے بھی بے لباس تھے اتنے مگر نہ تھے
اب جسم سے لباس حیا بھی اتر گیا