راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ ظلم کے سائے میں اِک چراغ تھا وہ
جس جگہ تُو نے کسی روشنی کو روندا تھا
جس جگہ پھول بھی مسلے تھے تُم نے پاؤں سے
وہ گلستانِ وطن جو تیرا گھروندا تھا
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ پہ ہے لہو قوم کی وفاؤں کا
جس جگہ بوریا ہے آج بھی جفاؤں کا
میرے بوڑھے اسی مٹی کے تلے دبتے رہے
میرے جوان بھی دھرتی کے لئے کٹتے رہے
ٓآج پھِر تُو نے اس زمین پر وہ کام کِیا
بناکے سازشیں حقیقتوں کا نام دِیا
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ تیری طبیعت نے تُجھ کو روکا تھا
تیرے ضمیر نے بے چارگی میں ٹوکا تھا
تُو بے ضمیر رہا دشمنوں کو ہاں کردی
سِتم ظریفی زمانے میں یوں عیاں کردی
یہ تیرا ظلم بھی تیری طرح کھلونا ہے
تُجھے عہبر رہِ حساب پیش ہونا ہے
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں