اک پری کے ساتھ موجوں پر ٹہلتا رات کو
اب بھی یہ قدرت کہاں ہے آدمی کی ذات کو
جن کا سارا جسم ہوتا ہے ہماری ہی طرح
پھول کچھ ایسے بھی کھلتے ہیں ہمیشہ رات کو
ایک اک کر کے سبھی کپڑے بدن سے گر چکے
صبح پھر ہم یہ کفن پنہائیں گے جذبات کو
پیچھے پیچھے رات تھی تاروں کا اک لشکر لئے
ریل کی پٹری پہ سورج چل رہا تھا رات کو
آب و خاک و باد میں بھی لہر وہ آ جائے ہے
سرخ کر دیتی ہے دم بھر میں جو پیلی دھات کو
صبح بستر بند ہے جس میں لپٹ جاتے ہیں ہم
اک سفر کے بعد پھر کھلتے ہیں آدھی رات کو
سر پہ سورج کے ہمارے پیار کا سایہ رہے
مامتا کا جسم مانگے زندگی کی بات کو