اگر جو زندگانی میں
کوئ ایسا موڑ آجائے
بھروسہ ٹوٹ جائے اور
وفا سے مان اُٹھ جائے
سمندر ساتھ بہتا ہو
مگر تشنہ پیاس رہ جائے
تھکن سے چُور آنکھوں میں
قصہء غم ٹہر جائے
محبت کی حقیقت پر سے
کوئ پردہ سا اُٹھ جائے
مگر اُداس مت ہونا
اگر ایمان اُٹھ جائے
سنو! اے فرش کے باسی
عرش کو آزما لینا
وہاں ایک ذات رہتی ہے
اُسے آواز دے دینا
دلوں کو جوڑنے کا فن
اُسے کیا خُوب آتا ہے
اُٹھا کر ہاتھ اُسکے در پہ
حالِ غم سُنا دینا
اگر جو رد کر دے وہ
صبر کو آزما لینا
اگر جو زندگانی میں
کوئ مشکل موڑ آجائے
نگاہ تم عرش پر رکھنا
اُسے بس یاد کر لینا