اگر زمانے کا یہ نظام ہو جائے
عروجِ لب پہ شیریں کلام ہو جائے
کہیں نظر کو جو آئے سلام ہو جائے
میرے حریف کا یوں احترام ہو جائے
بڑی تھکن ہے کہ آج بھی سفر پر ہوں
تیرے شہر میں کیوں نہ قیام ہو جائے
مٹا رہا ہے جو آپ ہی غیرت
نگاہ مرشد تیری حرام ہو جائے
لہو لہو ہے دیارِ عشق میرا
چلو نیازِ محبت سے انتقام ہو جائے
یہ بغاوتیں خدا سے بتاتی ہیں
مراد خود نفس کا غلام ہو جائے