اہل اِیمان کی گریہ میں سکوت کائنات
بائیں عمل غافل میں شور و غوغہ حاجات
لوح تقدیر میں لکھے با سبب اسباب
انسان اپنے ہی تئیں میں عمل مکافات
ارض شوی میں ہے عاجزی شبیری
منزل نوید میں ہے خوشہ انجیر التفات
را مقابل ہر زہ محاصل مشاھیر
اک قطرہ بقا میں تاثیر طبیب کائنات
پردہ سیمیں مزین رنگ بالاج
خیرہ نہ کر دے کہیں آب انگور مشکات
نارک تحریم تکبیر قیام مقام رکوع
سجود ہی پہنچائے تجھ کو تا منزل نجات
مانع طور و نور غائب و حضور
حرف بہ حرف لفظ بہ لفظ یہ صادق آیات
کھلے جو بام در میرا غنچہء نصیب میں
سخن سوز و جاں میں نہ رہے دل کی بات