روشن جو کردی آقا نے ایمان کی شعاع
روح و نظر میں بس گئی ایقان کی شعاع
ہر سُو جہاں میں پھیلی سرکار کے سبب
خلّاقِ دوجہان کے عرفان کی شعاع
غارِ حرا سے نکلی تھی عرصہ گزر گیا
اب بھی ہے خوب روشن قرآن کی شعاع
جینے کا حق جو دُخترِ حوّا کو مل گیا
ہے یہ بھی ایک اُن کے فیضان کی شعاع
آپ آے سرکشی کا جنازہ نکل گیا
پھیلادی جگ میں عظمتِ انسان کی شعاع
ہنسنے لگے ، وہ رنج و الم بھی بھلادیے
چمکی جو رونے والوں پہ مُسکان کی شعاع
ہے آرزو مُشاہدؔ رضوی کی یاخدا!
دل میں رہے ہمیشہ حسّان کی شعاع